انیس سو چوراسی (جارج آر ویل)

(قسط اول)


اپریل کا صاف اور سرد دن تھا۔ گھڑیاں ایک بجا رہی تھیں ۔ ونسٹن سمتھ پھرتی سے وکٹری مینشن کے شیشہ کے دروازے میں داخل ہوا ۔ سرد ہوا کے تھیٹروں سے بچنے کے لیے اس نے اپنی ٹھوڑی سینے سے لگا رکھی تھی ۔ اگر چہ وہ بہت تیزی سے اندر داخل ہوا تھا لیکن اس کے ساتھ تیز ہوا کے جھونکے سے تھوڑی گرد بھی اندر آ گئی تھی۔

 

اندر سے ابلی ہوئی گوبھی اور چٹائی کے پرانے چیتھڑوں کی بو آرہی تھی۔ ایک کونے میں دیوار پر ایک بڑا سارنگین پوسٹر چسپاں تھا۔ پوسٹر پر ایک بھاری چہرہ بنا ہوا تھا، تقریباً گز سواگز چوڑا، یہ ایک 45 سالہ آدمی کا چہرہ تھا۔ جس کی مونچھیں گھنی اور سیاہ، خدو خال کھردرے مگر دلکش تھے۔ ونسٹن سیدھا زینے کی طرف گیا۔ لفٹ کی طرف جانا بے سود تھا۔ اچھے بھلے دنوں میں بھی یہ لفٹ شاذ و نادر ہی کام کرتا تھا لیکن اب تو بچت کی مہم کے سلسلہ میں دن کے وقت بجلی ہی کاٹ دی جاتی تھی ۔ بغیر نظرت منانے کے سلسلے میں جو تیاریاں ہو رہی تھیں، یہ کفایت شعاری اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس کا کمرہ ساتویں منزل پر تھا۔ ونسٹن کی عمر 39 سال کی تھی۔ اس کے دائیں ٹخنے کے او پر ورم اور پھوڑا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ راستے میں وہ کئی مرتبہ دم لینے کے لیے رُکا۔ ہر چھت پر لفٹ کے پلیٹ فارم کے سامنے ویسا ہی بڑا سا پوسٹر چسپاں تھا اور وہ بڑا چہرہ اس کی طرف گھور کر دیکھ رہا تھا۔ یہ پوسٹر اس قسم کی تصویروں میں سے تھا جنھیں دیکھنے والا چلتے ہوئے محسوس کرتارہے کہ تصویر کی آنکھیں اس کے ساتھ چل رہی ہیں۔ پوسٹر کےوزارت سے اس وقت آنے کے سبب وہ کینٹین میں دو پہر کے کھانے کو بھی نہ جاسکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ باورچی خانے میں روٹی کے ایک سیاہ ٹکڑے کے سوا کوئی چیز نہیں ہے، جسے اگلے دن کے ناشتے کے لیے بچانا ضروری ہے۔ اس نے الماری سے بے رنگ سیال کی ایک بوتل اُتار لی۔ اس کے سفید لیبل پر وکٹری جن“ کے الفاظ لکھے تھے۔ اس کی بو بھاری اور نا خوشگوار تھی جیسے چاول کی چینی شراب ہوتی ہے۔ ونسٹن نے اس سیال کو ایک چائے کی پیالی بھر کر انڈیلا، اس نے اپنے آپ کو اس کی تلخی اور تندی برداشت کرنے کے لیے تیار کیا اور دوا کی طرح بڑے بڑے گھونٹوں سے اُتار گیا۔

 

اور یک دم اس کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔ اُس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ یہ شورے کے تیزاب کی طرح تھا اور اس کو پیتے وقت ایسا معلوم ہوتا جیسے کسی نے گڈی پر ربڑ کے موٹے ڈنڈے سے شدید ضرب لگائی۔ تھوڑی دیر بعد اس کے دورے کی جلن کم ہو گئی اور اسے ماحول قدرے خوش گوار نظر آیا۔ اس نے وکٹری سگریٹ کے بچے ہوئے پیکٹ سے ایک سگریٹ نکالا اور بے خیالی میں اسے انگلیوں میں سیدھا پکڑ لیا۔ اس کی تمہا کو فرش پر گر پڑی۔ دوسرا سگریٹ نکالا اور یہ سگریٹ سلگا لیا۔ وہ پھر نشست کے کمرے میں چلا گیا اور ایک چھوٹی میز کے قریب بیٹھ گیا۔ جو ٹیلی اسکرین کی بائیں جانب تھی۔ میز کی دراز سے اس نے قلم دوات اور کتابی صورت کی ایک تنظیم کالی نکالی کالی کے صفحات بالکل کورے تھے۔ اس کی جلد سرخ کپڑے کی تھی اور گرد پوش سفید رنگ کا تھا۔

 

نہ معلوم کیوں ٹیلی اسکرین اس کمرے میں غیر موزوں جگہ پر نصب تھی۔ عام طور پر ٹیلی اسکرین کونے میں لگی ہوتی تھی۔ کیونکہ اس طرح سارا کمرہ اس کے سامنے رہتا تھا لیکن ونسٹن کے کمرے میں یہ کھڑکی کے مقابل لمبی دیوار میں نصب تھی۔ اس کے ایک طرف دیوار میں خالی جگہ تھی جہاں ونسٹن اس وقت بیٹھا ہوا تھا۔ شاید جب یہ کمرے بنائے گئے تھے اُس وقت یہ کھونچ کتابوں کی الماری کے لیے چھوڑی گئی تھی۔ ونسٹن اس جگہ ٹیلی اسکرین کی نظر سے محفوظ تھا۔ البتہ اس کی آواز سنی جا سکتی تھی ۔ کمرے کی اس غیر معمولی حالت کی وجہ سے اسے ایک بات سو جھی تھی ۔ جس کا اب وہ عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کر رہا تھا۔ اس تحریک میں اس کا پی کو بھی بنیادی حیثیت حاصل تھی جو اس نے ابھی دراز سے نکالی تھی۔ ایک عجیب و غریب خوب صورت کا پی ، جس کا صاف اور چکنا کاغذ سال خوردہ ہونے کے سبب میالا سا ہو گیا تھا۔ اس طرح کا کاغذ گزشتہ چالیس برس میں نہیں تیار کیا گیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ کاپی چالیس سال سے زیادہ پرانی ہے۔ اُس نے اس کا پی کو شہر کے پسماندہ ترین محلے کی ایک پرانی اشیا کی دکان میں دیکھا تھا، کہاں ؟ اب یہ اس کو یاد نہیں رہا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی اس کے دل میں اسے حاصل کرنے کی شدید خواہش پیدا ہو گئی تھی۔ پارٹی کے ارکان عام دکانوں میں نہیں جاتے تھے۔ پارٹی کی اصطلاح میں اسے کھلے بازار خرید وفروخت کہا جاتا تھا لیکن اس ضابطہ پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا تھا۔ کیونکہ تسمے اور ریزر بلیڈ کسی دوسرے طریقے سے حاصل نہ ہو سکتے تھے۔ اس نے سڑک پر چری چری نگاہیں ڈالیں اور پھر تیزی سے دکان کے اندر داخل ہو کر اس کا پی کو ڈھائی ڈالر کے عوض خرید لیا۔ اُس وقت یہ نہ جانتا تھا کہ وہ اس کا پی کو کس کام میں لائے گا۔ وہ چوری چھپے اسے اپنے تھیلے میں ڈال کر لایا تھا۔ اگر چہ اس میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا تھا لیکن محض حاصل کرنا ہی اس کے لیے باعث مسرت تھا۔

 اب وہ روز نامچہ شروع کرنے کا ارادہ کر رہا تھا۔ یہ بات خلاف قانون نہیں تھی (کوئی بات بھی غیر قانونی نہیں تھی کیونکہ کوئی سرے سے قانون ہی نہیں تھا ) لیکن اگر یہ پکڑی گئی تو اُسے پورا یقین تھا کہ اُسے موت کی سزادی جائے گی یا 25 برس با مشقت قید، ونسٹن نے قلم میں نئی جب لگائی، اور اسے صاف کرنے کے لیے منہ سے چوسنا شروع کیا۔ قلم بہت پرانا تھا شاید کبھی دستخطوں کے لیے بھی شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہو۔ یہ قلم بھی اس نے بہت تلاش کے بعد بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا۔ وہ اس کا پی میں اسی قلم سے لکھنا چاہتا تھا۔ وہ خوب صورت کا پی کے چکنے اور بڑھیا ورقوں کو روشنائی والی پنسل سے خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر وہ ہاتھ سے لکھنے کا عادی بھی تو نہیں رہا تھا۔ کبھی کبھار دو چار سطریں لکھنے کی ضرورت پڑتی تو عام طور پر لکھنے والی مشین میں لفظ بول دیے جاتے لیکن پیش نظر مقصد کے لیے یہ بات کسی طرح ممکن نہ تھی۔ اس نے قلم کو دوات میں ڈالا۔ ایک سیکنڈ ر کا ، اور وہ لرز گیا۔ اس کی رگ رگ میں سنسنی پھیل گئی ۔ اس صاف اور چکنے کا غذ پر لکھنا بہت سوچ سمجھ کر کرنے کا کام تھا۔ اس نے چھوٹے چھوٹے بھدے حروف میں لکھا۔

14اپریل 1984ء اور وہ خاموش بیٹھ گیا۔ بے بسی سے مغلوب سا، یقین و وثوق سے وہ یہ بھی نہیں کہ سکتا تھا۔ یہ 1984 ء ہی ہے۔ ہاں اس کے قریب کا زمانہ ہو گا مگر اسے اس بات کا پورا یقین تھا کہ اس کی عمر 39 سال ہے اور وہ 1944ء یا 1945ء میں پیدا ہوا تھا لیکن اب ایسا وقت آ گیا تھا کہ ایک دو سال کے فرق کے بغیر کسی تاریخ کا قطعی تعین ناممکن تھا۔

 

یکا یک وہ اس بات پر حیران سا ہونے لگا کہ کس کے لیے میں یہ روز نامچہ لکھ رہا ہوں؟ مستقبل کے لیے یا آئیندہ پیدا ہونے والوں کے لیے صفحے پر مشکوک تاریخ کے متعلق مختلف خیالات اس کے ذہن میں چکر لگانے لگے۔ اچانک اسے نیو اسپیک کا لفظ دُہرا خیال‘ یاد آ گیا۔ اس لفظ کے ذہن میں آتے ہی اسے بہ خوبی معلوم ہو گیا کہ وہ جو کام کرنے والا ہے، وہ کس قدر اہم ہے اور دور رس ……. اسے مستقبل سے کس طرح منسلک کیا جا سکتا ہے؟ یہ بات کچھ غیر یقینی تھی۔ یا تو مستقبل حال کی مانند ہوگا، اس صورت میں اس کی آواز درخور اعتنا نہیں ہوگی اور اگر وہ حال سے مختلف ہوگا، تو بھی اس کی یہ کوشش بے کار اور بے معنی ہوگی۔

تھوڑی دیر وہ کاغذ پر احمقوں کی طرح نظر جمائے رہا۔ ٹیلی اسکرین سے فوجی نغمہ سنائی دے رہا تھا۔ حیرت انگیز بات تھی کہ وہ نہ صرف اظہارِ رائے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا تھا بلکہ اپنا مقصد بھی بھول گیا تھا، جو ابتدا میں اس کے پیش نظر تھا۔ کئی ہفتے سے وہ اپنے آپ کو اس لمحے کے لیے تیار کر رہا تھا اور یہ چیز بھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہ آئی تھی کہ جرات کے علاوہ کسی اور بات کی بھی ضرورت ہوگی۔ وہ لکھنے کو بے حد آسان سمجھتا رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ سالہا سال سے اس کے ذہن میں جو اُلجھے ہوئے منتشر اور متضاد خیالات کی کھچڑی سی پک رہی ہے بس انھیں کو کاغذ پر منتقل کرنا ہے مگر اب تو ان خیالات کا بہاؤ بھی رُک گیا تھا۔ مزید برآں اس کا پھوڑا بھی دُکھنے لگا تھا اور وہ پھوڑے کو ہاتھ سے سہلا بھی نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ اس سے وہ اور بھی زیادہ متورم ہو جاتا تھا۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا تھا۔ اسے اپنے سامنے خالی صفحے کے سوا کسی بات کا ہوش نہ تھا نہ ٹخنے کے اوپر میں کھجلی کا یہ مسلسل نفے کا ، نہ شراب وسرور کا! اچانک وہ خوف و اضطراب کے عالم میں تیزی سے لکھنے لگا۔ اسے یہ بھی احساس نہ تھا کہ وہ کاغذ پر کیا گھسیٹ رہا ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے حرفوں میں کاغذ پر لکھے جارہا تھا۔ 14اپریل 1984ء

 

کل رات میں سنیما دیکھنے گیا۔ ساری فلمیں جنگ کے متعلق تھیں، ایک فلم اچھی تھی۔ تارکین وطن کے ایک جہاز پر بحیرہ روم میں کسی جگہ بمباری کی گئی تھی۔ تماشائی بہت محفوظ ہوئے۔ ایک ہیلی کاپٹر ایک تیرتے ہوئے کیم و حیم آدمی کا تعاقب کر رہا تھا اور وہ بیچ کر نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ تماشائیوں نے اس منظر کو بہت پسند کیا۔ اس کے بعد وہ آدمی ہیلی کاپٹر کی بندوق کی زد میں دکھایا گیا تھا۔ پھر اس کا جسم چھلنی چھلنی دکھائی دیا۔ اس کے گرد سمندر کا پانی سرخ ہو گیا اور وہ بڑی تیزی سے اس طرح ڈوبا جیسے پانی کے اندر چھلنی بیٹھ جاتی ہے۔ جب وہ ڈوبا تو تماشائیوں نے بے تحاشا قہقہے لگائے ۔ اس کے بعد بچوں سے لدی ہوئی ایک لائف بوٹ سامنے آئی۔ اس کے اوپر ایک ہیلی کاپٹر پرواز کر رہا تھا۔ کشتی میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت بھی تھی۔ وہ یہودن ہوگی۔ وہ کشتی کے اگلے حصہ میں ایک تین سالہ بچے کو اپنے بازوؤں میں چھپائے بیٹھی ہوئی تھی۔ بچہ خوف سے چیخ رہا تھا اور اس کے بازوؤں میں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ عورت بھی اُسے اپنے بازوؤں میں چھپا رہی تھی اور اسے چمکا ر رہی تھی ۔ وہ اُسے اپنے جسم سے ڈھانپے رکھنے کی پوری کوشش کر رہی تھی، جیسے اس کی گود میں بچہ گولیوں سے محفوظ رہے گا۔ حالانکہ وہ خود بھی خوف سے نیلی پڑی جارہی تھی۔ اچانک ہیلی کا پڑ نے ایک وزنی بم گرایا۔ خوفناک دھما کا ہوا اور کشتی دیا سلائی کی تیلیوں کی طرح بکھر گئی۔ اس کے ساتھ بچے کا باز و دور تک ہوا میں سیدھا اوپر جاتے نظر آیا۔ شاید ہیلی کاپٹر میں نصب شدہ کیمرے نے اس بازو کی خاص طور پر تصویر لی تھی۔ پارٹی کی نشستوں سے اس منظر کی بڑی گرم جوشی سے داد دی گئی لیکن سینیما ہال کے عام حصے میں ایک عورت چیخ پڑی۔ بچوں کو ایسی فلمیں نہیں دکھانی چاہیں ، وہ اس وقت تک شور مچاتی رہی جب تک پولیس نے اسے باہر نہ نکال دیا۔ میرا خیال ہے کہ اس سے مزید کچھ نہیں کہا گیا ہوگا۔ کوئی بھی عوام کی بات کی پروا نہیں کرتا ۔ عوام کے رد عمل کی کوئی اہمیت نہیں …

 ونسٹن نے لکھنا بند کر دیا۔ وہ نڈھال سا ہو گیا۔ وہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ کس جذبے کے تحت یہ مہمل با تیں اس کے قلم سے نکلیں لیکن حیرت تھی کہ جب وہ لکھ رہا تھا ، اس کے ذہن میں بالکل مختلف یاد تازہ ہوگئی جو اتنی اہم تھی کہ لکھنے کے قابل تھی اور اس کے بعد اسے محسوس ہوا کہ اسی واقعہ کی تحریک نے اسے جلد گھر آنے اور آج ہی سے روز نامچہ لکھنے پر مجبور کیا۔ اگر ایسی مہم بات کو واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے تو یہ واقعہ آج ہی صبح وزارت میں پیش آیا تھا۔ گیارہ بجنے والے تھے۔ شعبہ ریکارڈ میں جہاں ونسٹن کام کرتا تھا، لوگ کمروں سے کرسیاں نکال نکال کر بڑی ٹیلی اسکرین کے سامنے جمع کر رہے تھے۔ دو منٹ کی نفرت شروع ہونے والی تھی ۔ ونسٹن ایک درمیانی صف میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ دو آدمی خلاف توقع اس کی طرف آتے دکھائی دیے۔ ونسٹن انھیں مشکل سے پہچانتا تھا مگر ان سے بات چیت نہیں ہوئی تھی ۔ ایک لڑکی تھی جس کے پاس سے دو برآمدے میں اکثر گزرتا تھا۔ وہ اس کا نام نہیں جانتا تھا لیکن اسے یہ معلوم تھا کہ وہ افسانوی شعبہ میں کام کرتی ہے۔ اس نے اکثر اس کے ہاتھ تیل میں لتھڑے ہوئے دیکھے تھے۔ وہ ناول لکھنے والی مشینوں کی مکینک ہوگی ۔ تقریباً 27 سال کی عمر ، گھنے سیاہ بال، چہرے پر جھریاں کی لیکن چال ڈھال سے وہ کھانڈری معلوم ہوتی تھی۔ اس کے لبادے پر جو نیر مخالف صنف لیگ کا طغرہ کڑھا ہوا تھا اور لبادہ اتنا چست تھا کہ بدن کے خطوط نمایاں تھے۔ پہلی ہی نظر میں ونسٹن کو اس سے شدید نفرت ہو گئی تھی۔ اسے اس کی وجہ معلوم تھی۔ اس کو دیکھتے ہی اس کے ذہن میں کھیل کے میدان، سرد نسل مخلوط سیر و سیاحت اور حفظانِ صحت اور صفائی کا تختیل ابھرتا تھا۔ اُسے عورتوں سے نفرت تھی اور خاص طور پر نوجوان اور خوب صورت عورتوں سے۔ یہ عورتیں بالخصوص نوجوان لڑکیاں ہی ہوتیں، جو تعصب کی حد تک پارٹی کی وفادار، نعرے لگانے میں سب سے آگے، پیشہ ور جاسوسی میں طاق ہوتیں اور دوسرے لوگوں میں قدامت ورجعت پسندی تلاش کرنے میں ہمہ وقت مصروف رائیں اور اس لڑکی کو تو وہ بہت زیادہ خطرناک سمجھتا تھا۔ ایک بار جب وہ برآمدے سے گزر رہا تھا تو اس نے مڑکر اس کی طرف دیکھا تھا اور اس نے یہ محسوس کیا تھا ……. کہ اس کی نگاہ اس کے جسم کو چیرتی ہوئی گزرگئی اور وہ ہیبت کے مارے تھرا اٹھا۔ اس کو یہ شبہ ہوا تھا کہ وہ خیالات کا جائزہ لینے والی پولیس کی ایجنٹ ہے۔ گو اس کا قرینہ بہت کم تھا لیکن پھر بھی وہ اسے دیکھتے ہی اک عجیب بے چینی سی محسوس کرتا اور جب کبھی وہ اس کے قریب ہوتی ، اس کے اندر خوف کے ساتھ شدید نفرت بھی اُبھر آتی۔ دوسرا او برائن تھا، پارٹی کے داخلی حلقے کا رکن، وہ کسی ایسے اعلیٰ عہدے پر فائز تھا جس کے متعلق نیسٹن کو بہت کم علم تھا۔ جب لوگوں نے اس اہم عہدے دار کو آتے دیکھا تو سکوت چھا گیا او برائن بھاری بھر کم لمبا تڑنگا آدمی تھا۔ مضبوط گردن ، چہرہ بھدا ، خدو خال خوفناک اور انداز تمسخرانہ سا، اگر چه مشکل و شباہت سے خوفناک دکھائی دیتا، پھر بھی حرکات وسکنات میں یک گونہ کشش سی تھی۔ وہ ایک خاص انداز سے اپنی عینک ناک پر جھاتا۔ ونسٹن اس کی توجیہ تو نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کو اس کے مخصوص انداز میں ایک معاشرے کی جھلک نظر آتی۔ جیسے اٹھارویں صدی کا کوئی رئیس زادہ تواضع کے ساتھ اپنے ساتھی کو نسوار پیش کر رہا ہے۔ ونسٹن نے او برائن کو بارہ سال میں شاید با روی مرتبہ دیکھا ہوگا۔ وہ اپنے دل میں او برائن کے لیے خاص کشش ہی پاتا تھا اور شاید یہ او برائن کے پہلوانوں جیسے تن و توش اور رئیس زادوں جیسے طور طریق کے عجیب سے تضاد کا سبب تھی۔ ونسٹن اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ محسوس کرتا تھا یا شاید یہ آرزو کرتا تھا کہ کاش او برائن پارٹی کے سیاسی معیار پر ہر لحاظ سے پورا نہ اترتا ۔ غالباً اس کے چہرے میں کوئی ایسی بات تھی کہ نسان کے ذہن میں خود بخود یہ خیال بیدار ہو جا تا اور شاید یہ اعلیٰ سیاسی معیار کی کمی نہ تھی بلکہ اس کے چہرے پر کچھ مخصوص قسم کی ذہانت و ذکاوت تھی، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا۔ بہر حال ونسٹن اسے ایسا آدمی سمجھتا تھا کہ اگر ٹیلی اسکرین سے بچ سکیں تو اس سے تنہائی میں کھل کر بات چیت کی جا سکتی ہے۔ ونسٹن نے اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی ، نہ اس کی کوئی صورت تھی ۔ او برائن نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی۔ ٹھیک گیارہ بجے تھے۔ اوبرائن نے نفرت کے دو منٹ شعبہ ریکارڈ میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ونسٹن والی صف میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ ونسٹن سے دو نشست در میان .. ونسٹن کے ساتھ والے کمرے میں جو چھوٹے چھوٹے بھورے بالوں والی عورت کام کرتی تھی ، وہ بھی ان کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی ۔ گھنے سیاہ بالوں والی عورت اس کے

عین عقب میں تھی۔ اچانک کمرہ ایک مہیب آواز سے گونج اُٹھا۔ ایسا معلوم ہوا کہ بغیر تیل کے کوئی مشین پوری تیزی سے چلنے لگی اور خشک پرزوں کی باہمی رگڑ سے خوفناک شور پیدا ہو رہا ہے۔ اس شور پر ایک کے دانت کٹکٹائے اور رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ نفرت شروع ہو چکی تھی۔ معمول کے مطابق عوام کے دشمن ایمو و کل گولڈ اسٹائن کا چہرہ ٹیلی اسکرین پر جلوہ گر تھا۔ بعض سامعین کی گھنٹی ہوئی چیخیں نکل گئیں ونسٹن کے ساتھ والی عورت کی چیخ خوف اور نفرت سے ملی جیلی تھی۔ گولڈ اسٹائن وہ مرتد تھا، جو آج سے بہت عرصہ پہلے ( کتنے عرصہ پہلے، یہ کسی کو پوری طرح معلوم نہ تھا ) پارٹی کی ایک اہم ترین شخصیت رہا تھا۔ وہ بڑے بھائی کا ہم رتبہ تھا۔ انقلاب کے خلاف سرگرمیوں کے جرم میں اسے موت کی سزادی گئی تھی لیکن وہ پر اسرار طور پر بیچ نکلا اور رو پوش ہو گیا۔’ دومنٹ نفرت کا پروگرام روز کا روز بدلتا رہتا لیکن ہر پروگرام میں گولڈ اسٹائن کا چہرہ ضرور شامل ہوتا تھا۔ وہ سب سے بڑا غدار تھا اور اس نے ہی سب سے پہلے پارٹی کی پاک دامانی کو داغدار کیا تھا۔ اس کے بعد پارٹی کے خلاف جتنے جرائم ہوئے ، جو غداریاں ہوئیں، توڑ پھوڑ بغاوت اور علیحدگی کے جتنے فتنے اٹھے، وہ سب گولڈ اسٹائن کی سازشی تعلیم کا براہ راست نتیجہ تھے۔ وہ اس وقت بھی کسی نہ کسی جگہ زندہ تھا اور اپنی سازشوں میں مصروف تھا، شاید وہ سمندر پار اپنے غیر ملکی آقاؤں کی حفاظت میں تھا۔ شاید (کبھی کبھی یہ افواہ بھی پھیلتی ) وہ اوشیانا ہی میں کسی جگہ روپوش ہے۔

ونسٹن کے اعصاب میں کھچاؤ سا پیدا ہو گیا۔ گولڈ اسٹائن کا چہرہ دیکھ کر اس کے جذبات میں انتشار و تلاطم سا پیدا ہونے لگتا۔ اس کا چہرہ یہودیوں کی طرح سُنتا ہوا لمبوتر اسا تھا۔ اس کے بال سفید تھے اور بکرے کی سی داڑھی تھی۔ اس کے بشرے سے عیاری ٹپکتی تھی اور اس کو دیکھنے کے بعد جیسے از خود اس سے نفرت ہو جاتی تھی۔ اس کی پہلی ناک میں ٹینک کبھی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی شکل اور آواز بھیٹر سے ملتی جلتی تھی ۔ گولڈ اسٹائن حسب معمول پارٹی کے نظریات کے خلاف زہریلی تقریر کر رہا تھا۔ اس کی مخالفت میں نمایاں مبالغہ آرائی تھی ۔ اتنی عیاں کہ ایک بچہ بھی اس بات کو بہ خوبی سمجھ سکتا تھا لیکن پھر بھی اس میں یہ خطرہ محسوس ہوتا کہ جن لوگوں کو اس کی بات کا فہم و شعور نہ ہو۔ وہ کہیں اس کی باتوں کو باور کر کے پھنس نہ جائیں۔

وہ بڑے بھائی کو گالیاں دے رہا تھا۔ وہ پارٹی کی مطلق العنانی کی مذمت کر رہا تھا۔ وہ یوریشیا کے ساتھ فوری طور پر صلح کا معاہدہ کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ وہ آزادی تقریر وتحریر، آزادی اجتماع اور آزادی خیال کی حمایت کر رہا تھا۔ ہذیانی کی کیفیت کے ساتھ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھے۔ ان پیروکاروں کو اخوان کا نام دیا جاتا تھا۔ سرگوشیوں میں ایک خاص خوفناک کتاب کے

متعلق افواہ بہت عام تھی کہ اس میں گولڈ اسٹائن کے تمام باغیانہ خیالات و نظریات جمع کر دیے گئے ہیں۔ اس کی اشاعت کے بارے میں ہر جگہ سرگوشیوں میں ذکر ہوتا۔ اس کتاب کا کوئی نام نہیں تھا۔ لوگ اس کتاب کا ذکر بس "کتاب ہی کہہ کر کیا کرتے۔ ان باتوں کے متعلق ساری معلومات افواہوں تک محدود تھیں ۔ اخوان اور کتاب کے بارے میں پارٹی کے ارکان شاذ و نادر

ہی ذکر کرتے بلکہ حتی الامکان اس سے گریز کرنے کی کوشش کرتے۔ اور پھر تو بھونچال سا آ گیا۔ پروگرام کے دوسرے منٹ میں نفرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ لوگ اپنی نشستوں پر اچھل اچھل پڑتے تھے۔ وہ چلا چلا کر نفرت کا اظہار کر رہے تھے اور ٹیلی اسکرین کی آواز کو اپنی چیخ و پکار سے دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ونسٹن کے برابر والی عورت کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور اس کا منہ اس طرح کھل کھل کر بند ہورہا تھا، جیسے پانی سے نکلی ہوئی مچھلی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتی ہے۔ اوبرائن کا بھاری بھر کم منہ بھی سرخ ہورہا تھا۔ وہ تن کر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی چھاتی اس طرح پھیل چھیل کر سکڑ رہی تھی، جیسے موجوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ نسٹن کے پیچھے وہ گھنے سیاہ بالوں والی لڑکی زور زور سے پکارنے لگی ۔ سور ! شور ! سور!‘اچانک اس نے نیو اسپیک کی ایک منیم لخت اُٹھائی اور اُسے زور سے ٹیلی اسکرین پر دے مارا۔ کتاب گولڈ اسٹائن کی ناک پر تنگی اور پھر ایک طرف گر پڑی لیکن ٹیلی اسکرین کا شور اور لوگوں کی چیخ پکار برابر جاری رہی۔ اس دوران میں ونسٹن نے محسوس کیا کہ وہ بھی سب کے ساتھ شور مچارہا۔ وہ غصے میں زور زور سے اپنے پاؤں فرش پر مار رہا تھا۔ دومنٹ نفرت کے پروگرام میں خوفناک بات یہ نہیں تھی کہ ہر ایک کو اس میں حصہ لینا پڑتا تھا بلکہ یہ کہ اس سے بچنا ناممکن تھا۔ تمیں سیکنڈ کے بعد کوئی بہانہ نہیں چل سکتا تھا۔ سب لوگوں میں بہ یک وقت برقی رو کی طرح جنون کی کیفیت دوڑ جاتی اور ان کے اعصاب و ذہن پر مارڈالنے توڑ دینے ، الٹ پھینکنے، اذیت پہنچانے قتل کرنے اور انتقام لینے کا جوار بھاٹا اُٹھتا۔ اس طرح جب ونسٹن کو اپنی جنونی حرکات کا احساس ہوتا تو اس کی نفرت گولڈ اسٹائن کی جگہ " بڑے بھائی پارٹی اور خیالات کا جائزہ لینے والی پولیس کی طرف مبذول ہو جاتی اور ٹیلی اسکرین پر نفرت و کراہت کا شکار گولڈ اسٹائن اسے سچائی کا مجسمہ اور دجل وفریب کی دنیا میں عقل و دانش کا مینار معلوم ہوتا لیکن اگلی ساعت وہ بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ گولڈ اسٹائن کے خلاف نفرت و کراہت کا اظہار کرنے میں پیش پیش ہوتا۔ اسے گولڈ اسٹائن کے خلاف ساری باتیں کچی معلوم ہونے لگتیں۔ اس موقع پر بڑے بھائی کے ساتھ دلی نفرت محبت و عقیدت میں بدل جاتی اور پھر بڑا بھائی بلند مینار، نا قابل تسخیر، بے خوف، محافظ اور ایشیائی نڈی ڈل کے سامنے چٹان کی صورت نظر آتا اور گولڈ اسٹائن اپنی تنہائی، کسمپرسی ، بے بسی اور مشکوک زندگی کے باوجود خوفناک ، فریبی اور مکار نظر آتا اور صرف اپنی آواز کے سحر سے تہذیب و تمدن کو ختم کر دینے والا جنونی معلوم ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وقت انسان اپنی نفرت کے جذبات کا رُخ بدل دے۔ چنانچہ ونسٹن نے گولڈ اسٹائن کے بجائے اپنے پیچھے بیٹھی ہوئی گھنے سیاہ بالوں والی عورت کی طرف اپنی نفرت کا رُخ موڑنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا۔ اس کے ذہن کے پردے پر نفرت کے عجیب دلکش تصورات اور انتقام کے نادر طریقے وارد ہونے لگے۔ وہ اسے ربڑ کے کوڑے سے ہلاک کر دے گا۔ وہ اسے ننگا کر کے لکڑی کے ستون سے باندھے گا اور تیروں سے اُسے چھلنی کر دے گا۔ وہ اس کے جسم سے کھیلے گا اور عین مسرت و اہتزاز کے موقع پر اس کا گلا گھونٹ دے گا۔ ان تصورات میں اس نے یہ سوچا کہ وہ اس سے اتنی شدید نفرت کیوں کرتا ہے؟ اس لیے کہ نوجوان اور خوبرو ہونے کے باوجود وہ جنسی زندگی کے خلاف ہے۔ وہ اس کے ساتھ لطف اندوز ہونا چاہتا ہے وہ اس کی کمر میں اپنے باز و حمائل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی دلکش کمر دعوت دیتی ہے کہ لپٹ جاؤ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی کمر کے گرد بیٹی ، کنوار پن اور جونیئر مخالف صنف کا طغرہ ہر جگہ نمایاں تھا۔ نفرت نقطۂ عروج پر پہنچ چکی تھی۔ گولڈ اسٹائن کی آواز بھیڑوں کی طرح بھر گئی تھی اور اک ساعت سے اس کا چہرہ بھی بھیڑ کی طرح ہو گیا اور پھر بھیٹر کا چہرہ ایک یوریشین سپاہی کی صورت میں بدل گیا۔ آگے یوریشین سپاہی قد آور اور بڑا خوفناک جس کی مشین گن بڑا ان گولیاں اگل رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ٹیلی اسکرین سے باہر چھلانگ لگا دے گا۔ یہ احساس اتنا حاوی تھا کہ اگلی

 

صفوں میں بعض لوگ فی الواقع اپنی نشستوں پر پیچھے کی طرف دبک گئے لیکن اچانک یہ خوفناک چہرہ خلا میں گم ہو گیا اور اس کی جگہ بڑے بھائی کا متبسم چہرہ ظاہر ہوا۔ سیاہ مونچھیں اور سیاہ بال، طاقت اور جلال کا آئینہ دار تھا اور تحمل و عظمت کا مظہر، بڑے بھائی کے الفاظ شاید کسی نے نہیں نے۔ یہ حوصلہ افزائی کے چند لفظ تھے۔ وہی الفاظ جو گھمسان کی لڑائی میں فوج کے سامنے بولے جاتے ہیں۔ اگر چہ جنگ کے شور میں وہ صاف طور پر منائی نہیں دیتے لیکن صرف بولے جانے کی وجہ سے نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ اس کے بعد بڑے بھائی کا چہرہ بھی غائب ہو گیا اور پارٹی کے تین نعرے جلی حروف میں ٹیلی اسکرین پر نمودار ہوئے۔ جنگ امن ہے! آزادی غلامی ہے! جہالت طاقت ہے! پروگرام ختم ہونے کے بعد چند ثانیے ٹیلی اسکرین پر بڑے بھائی کا چہرہ تصور میں گھومتا رہا۔ کیونکہ اس نے تماشائیوں کی پتلیوں پر جو نقوش پیدا کیے تھے، وہ فوری طور پر زائل ہونے والے نہ تھے۔ ونسٹن کی ساتھی عورت نے اپنے باز و اگلی صف کی گرمی کی پشت پر ٹیک دیے تھے اور وہ بڑے جوش و خروش کے ساتھ کہ رہی تھی ۔ ” میرے نجات دہندہ “ اس نے یہ الفاظ کہتے ہوئے اپنے باز و اسکرین کی طرف پھیلا دیے۔ اس کے بعد اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپالیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ زیر لب کوئی دُعا پڑھ رہی ہے۔ پروگرام کے اختتام پر کل حاضرین ہم آہنگ ہو کر اپنا خاص راگ الاپنے لگے۔ یہ سلسلہ کافی دیر جاری رہا۔ ہر الاپ کے درمیان کچھ وقفہ ہوتا پھر سب کی ملی خیلی آواز بلند اور خوفناک لہجہ اختیار کر گئی۔ اس کے ساتھ یہ محسوس ہونے لگا کہ پس منظر میں سپاہیوں کے قدموں کی آواز اور بینڈ کا بھی شور ہے۔ یہ سلسلہ تقریبا نصف منٹ تک جاری رہا۔ جذبات میں تموج کے ساتھ یہی موسیقی دہرائی جاتی کسی حد تک یہ راگ بڑے بھائی کی عظمت و جبروت اور تدبر و دانش کے ساتھ مدح و ثنا کا آئینہ دار تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس سے ذہنوں پر سحر کی سی کیفیت طاری ہوتی جاتی اور اس طرح مترنم آہنگ کے شور کے ساتھ شعور و نمیر کی آواز کو دبایا جاتا تھا۔ ونسٹن یہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کی آنتیں جیسے سردی سے شکونے لگی ہیں، اس دومنٹ نظرت" کے پروگرام میں اس خاص ہیجان سے بچ نہیں سکتا تھا اور پھر اس کے اختتام پر یہ راگ کے الاپتے ہوئے وہ خوف و دہشت کا شکار ہو جا تا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی دوسروں کے ساتھ الا پتا تھا۔ دوسری صورت ممکن ہی نہ تھی۔ اپنے احساسات و جذبات کو مخفی رکھنا، اپنے چہرے کے تاثرات کو قابو میں رکھنا اور پھر دوسروں کے ساتھ ہر بات میں شریک ہونا، اس کی جبلت میں داخل ہو گیا تھا لیکن اس دوران میں بھی اک آن کی آن اس کی آنکھوں میں ایسی چمک پیدا ہوتی جاتی جو اس کی داخلی کیفیات کو عیاں کر سکتی تھی اور عین اسی وقت ایک اہم بات وقوع پذیر ہوئی۔ ایک نظر ونسٹن اور او برائن کی آنکھیں چار ہوئیں ۔ او برائن کھڑا ہو گیا اُس نے آنکھوں سے عینک اُتار لی اور اب وہ اپنے مخصوص انداز میں اسے اپنی ناک پر دوبارہ جمانے والا ہی تھا۔ اس دوران میں ان کی نظریں مل گئیں اور نگاہوں ہی نگاہوں میں ونسٹن نے یہ محسوس کیا کہ اوبرائن کے ذہن میں بھی کچھ وہی خیالات ہیں جو اس کے اپنے اندر موجزن تھے۔ دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے کو کھلا پیغام دے رہی تھیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ گویا دونوں کے فہم و ادراک کے دروازے کھل گئے ہیں اور نظروں ہی نظروں میں ایک کے خیالات دوسرے تک پہنچ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اوبرائن اس سے کہہ رہا تھا۔ ”میں تمھارے ساتھ ہوں، میں تمھارے احساسات و جذبات کا پورا محرم ہوں۔ مجھے تمھاری نفرت، حقارت اور کراہت کا اچھی طرح علم ہے۔ پریشان نہ ہو، ہم ساتھ ساتھ ہیں۔ اور پھر باہمی فہم و شعور کی یہ قندیلیں بجھ گئیں اور سب کی طرح او برائن کا

 

چہرہ بھی ہموار ہو گیا۔ قصہ ختم ہو چکا تھا اور ونسٹن کا دماغ شکوک وشبہات کی آماجگاہ بن گیا۔ ” آیا ایسا ہوا بھی تھا ؟ اس قسم کی چیزوں سے منطقی نتیجے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ اور اس واقعے کی دُھندلی روشنی میں اس کے دل کی گہرائیوں پر امید کی باریک سی کرن چمکتی اور پھر جیسے یقین کا ہلکا ہلکا عکس دماغ کے پردے پر منعکس ہوتا۔ اس کے علاوہ اور لوگ بھی پارٹی کے مخالف ہیں ۔ شاید وسیع پیمانہ پر سازشوں کی افواہوں میں بھی صداقت ہو۔ شاید اخوان فی الواقع موجود ہوں۔ قید و بند ، اقبال جرم اور سزائے موت کے لامتناہی سلسلے کے باوجود یہ بات یقینی معلوم ہوتی کہ اخوان کا وجود خیالی نہیں ہے۔ کبھی وہ اس پر یقین کرنے لگتا اور کسی روز خاص معاملات کے تحت نا امید ہو جا تا۔ اس کا کوئی ثبوت تو تھا ہی نہیں، کچھ جھلکیاں ہی نظر آجاتیں جن سے بہت کچھ مطلب اخذ کیا جاسکتا تھا اور پھر کچھ بھی نہیں۔ کسی کی گفتگو کا ایک آدھ جملہ، بیت الخلا کی دیواروں پر کبھی کوئی ڈھند لی تحریر، ملاقات کے دوران میں دو اجنبیوں کے درمیان ہاتھوں سے مخصوص اشارہ ، جیسے یہ کوئی شناخت کی علامت ہے وغیرہ وغیرہ، مگر یہ سب ذہنی قیاس آرائی تھی اور خوش فہمی ، ہو سکتا ہے یہ سب اس کے خیالات کا کرشمہ ہو۔ وہ اس وقت او برائن کی طرف دوبارہ دیکھے بغیر اپنے کمرے میں واپس چلا گیا تھا۔ اس لحاتی رابطہ کو طویل بنانے کی ہمت نہ کر سکا تھا۔ اگر اسے اس کا صحیح طریق کا ر بھی معلوم ہوتا تو بھی ایسی کوشش بہت خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔ صرف ایک لمحہ ان کی نظروں میں تبادلہ ہوا تھا کچھ نامہ و پیام سا، اور اس کے بعد یہ چند منٹ میں ختم ہو گئی تھی ۔ بایں ہمہ یہ ایک یا درکھنے کے قابل واقعہ تھا اور تنہائی میں حل کرنے کے لیے ایک لمحہ فکر پیدا کرتا تھا۔ ونسٹن کے خیالات کا دھارا ڑک گیا اور وہ سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اس نے جماہی لی۔ شراب کے بخارات اس کے معدے سے آہستہ آہستہ اُٹھ رہے تھے۔ اُس کی آنکھیں دوبارہ کاغذ پر مرکوز ہو گئیں اور اس نے غور کیا کہ اپنے خیالات میں مست، جیسے وہ غیر شعوری طور پر کاغذ پر لکھتا رہا ہے اور اس دفعہ اس کا خط شکستہ اور بھدا نہیں ہے.... اس کے قلم نے کاغذ کے کافی حصے پر واضح اور صاف کئی سطروں میں لکھا تھا۔

 

بڑا بھائی مُردہ باد! بڑا بھائی مردہ باد!

 

بڑا بھائی مُردہ باد! بڑا بھائی مردہ باد!

 

اور نصف صفحہ بھر گیا تھا۔

 

اس کے رگ و پے میں خوف اور دہشت کی لہر دوڑ گئی۔ یہ تو صریح حماقت ہے۔ روز نامچہ شروع کرنا کوئی کم خطر ناک بات نہیں اور پھر ان الفاظ کی تکرار نے تو کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ اُس نے اس صفحہ کو کاپی سے پھاڑ ڈالنے اور روز نامچہ لکھنے کے خیال کو ترک کر دینے کا ارادہ کیا۔ لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ بے سود ہے۔ خواہ وہ بڑا بھائی مردہ باد لکھے یا اس سے احتراز کرے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ خیالات کا جائزہ لینے والی پولیس اسے ہر حالت میں اپنی گرفت میں لے لے گی۔ اس سے جرم سرزد ہو چکا تھا۔ اگر وہ قلم نہ بھی پکڑتا تو بھی اس سے یه جرم سرزد ہونا تھا۔ اتنا بڑا جرم! جس میں دوسرے کل جرائم لیٹے ہوئے ہیں۔ اسے قانونی اصطلاح میں "جرم خیال" کہتے تھے۔ یہ اب ایسا جرم نہیں تھا، جسے ہمیشہ پوشیدہ رکھا جا سکتا ہو۔ کچھ عرصہ تک دھوکا دیا جا سکتا تھا لیکن ان کی گرفت سے بیچ نکلنا قطعی ناممکن تھا۔

 

چھا پا رات کے وقت پڑھتا گرفتاریاں بالعموم رات کو ہی ہوتیں ۔ ضابطہ کی ہلکی سی ٹھوکر سے نیندٹوٹ جاتی ۔ مضبوط آہنی پنجہ شانے سے ہلاتا ۔ آنکھیں تیز روشنی میں کھلتیں۔ بستر کے گرد موت کے فرشتوں کی طرح رحم و ہمدردی سے نا آشنا چہروں کا گھیرا ہوتا۔ اکثر تو مقدمے بھی نہیں چلائے جاتے ۔ قید کی کوئی اطلاع تک نہ ہوتی۔ نام رجسٹروں سے خارج کر دیا جاتا۔ ہر چیز کا ریکارڈ تلف کر دیا جاتا۔ گو یا عدم و وجود ہی ختم کر دیا جاتا ، حرف غلط کی طرح حو... جیسے ہستی سے ہی انکار کر دیا جاتا۔ گویا بخارات بنا کر ہوا میں زائل کر دیا جاتا۔ چند لمحے اس کے اعصاب پر تشنجی کیفیت طاری رہی اور پھر وہ تیزی سے اُلجھے اُلجھے خط میں لکھنے لگا: "وہ مجھے گولی سے اُڑا دیں گے امیں اس کی رتی بھر پروانہیں کرتا۔ وہ میری گدی پر گولی ماریں گے۔ کوئی غم نہیں۔ بڑا بھائی مردہ باد! وہ ہمیشہ گردن کی پشت کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ بڑا بھائی مرد و باد!" اس نے پھر کرسی کی پشت پر ٹیک لگالی۔ اسے اپنے آپ پر شرم ہی آنے لگی۔ اس نے قلم رکھ دیا۔ دوسرے لمحہ وہ جیسے ہڑ بڑا کر چوکنا ہو گیا۔ دروازے پر دستک ہورہی تھی ۔ کیا ابھی سے ! وہ خائف چوہے کی طرح خاموش اور ساکت بیٹھا رہا۔ اس اُمید موہوم میں کہ دستک دینے والا شاید ایک ہی بار کھٹ کھٹا کر پلٹ جائے لیکن نہیں۔ دستک پھر ہوئی۔ اب دروازہ کھولنے میں تاخیر خطرے میں مزید اضافے کا موجب ہوگی اور اس کا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا لیکن اس کا چہرہ پختہ تجربہ اور راسخ عادات کی وجہ سے ہر قسم کے احساس و جذبے سے عاری سا تھا۔ وہ کرسی سے اُٹھا اور بے دلی سے دروازہ کی طرف بڑھا۔

 

Comments